کاشتکار اور اُدھار

 اسلام علیکم

اس پوسٹ کو لکھنے کا مقصد ہر گز ہر گز کسی کی دل آزاری کرنا نہیں ہے۔ بس سمجھانے کی کوشش کی ہے اگر سمجھ میں آجائے تو۔۔۔۔۔۔۔۔  

میرے پیارے ادھار لینے والے کسان بھائیو متوجہ ہوں. میری بات کو مکمل اور

 توجہ سے اور پورا پڑھنا. میں ایڈوانس معافی چاہتا ہوں. کیوں کہ کافی سارے بھائیوں کومیری باتوں سےغصہ آ سکتا ہے .

 سپرے کھاد دینے والے آڑھتی فرنچائزی ڈیلرز دکاندار ہم کسانوں کے اللہ کے کرم سے بڑے  سپورٹر تھے.ہمارے ساتھ بہت تعاون کرتے تھے اور ہیں ۔ یعنی ہمیں روزی روٹی حصل کرنے میں ہماری بغیر پیسوں سے ہماری مدد کرتے  تھےمگرہم کسانوں نے کیا کیا ؟ ایمان کے لحاظ کہاں کھڑے ہیں خود احتساب کریں۔  

ہم کسانوں نے اپنی فصلیں تیار کرنے کے لئے کچھ آڑھتیوں اور سپرے کھاد ڈیلرزسے رابطے کئے اور ہم نے ادھار لینا شروع کیا اور اج ہم  ادھار لینے کے عادی ہو چکے ہیں.پہلے ہم مجبوری میں ادھار لیتے تھے اب ہمارا پیشہ بن گیا ہے یہ ادھار لینا ۔ ادھار لیں اپنی ضروریات کو پورا کریں اور اپنے کئے ہوئے وعدہ پر لوٹا نا بھی ہمارے لئے اتنا ضروری ہے جتنا ادھار لینا ضروری تھا۔ لیکن اج کل ہم جب ادھار لیتے ہیں تو سوچ لیتے ہیں کہ  ہم نے اسکو پیسے واپس نہیں کرنے جو  مرضی ہو جائےنیت بنیاد ھے اگر بنیاد خراب ہوگی تو پھر مضبوط بلڈنگ کیسے کھڑی رہ سکتی ھے. پہلے ہم خود جا کر ادھار واپس کیا کرتے تھے۔ پھر ہمارے کچھ بھائیوں نے دیر سے واپس کرنا اور پھر بہانے بنا کر بہت لیٹ کرنا شروع کردیا اور کچھ توایسے بھی ہم میں سے پیدا ہوئے کہ ادھار واپس دینا ہی نہیں ایک سے لے لیا تودوسرا ،تیسرا اور پھر ایک مارکیٹ سے دوسری مارکیٹ میں اپنی ایمانداری کے جو ہر دکھائے ۔ اور نتیجہ کیا نکلا ۔ پھر ہمارے بے ایمان کچھ بھائیوں کی وجہ سے جو ہمیں ادھار دیتے اور صاف ستھری چیز دیتے تھے انہوں نے ادھار پر منافع لگانا شروع کر دیا اور پروڈکٹس میں بھی فرق انا شروع ہو گیا۔ اور ہماری آمدن مین سے برکت ختم ہونا شروع ہو گئی۔اسی لیئے ھماری فصلیں آفت زدہ ہورھی ھیں .ھم کسان انسانوں سے لیا قرض واپس نہیں کرتے اوراب تو ہم نے اللہ کے  فرائض ادا کرنے بھی چھوڑ دئے ہیں۔ جو ہمارے عیب چھپاتا ہے اور ہمیں بن مانگے اطاء کرتا ہے۔ ہم نے نماز ،روزہ،خیرات، عشر و زکواۃ دینا چھوڑ دیا ہوا ہے۔ پھر ھم کسان کیسے خوشحا ل ہوں گے ھم میں سے بہت سےکسان اپنے رب کے نافرمان ہیں جو پوری کائنات کو رزق دیتا ھے. ہم میںسے بہت سے کسان کتنے فرض شناس ہیں جس ڈیلر سے زرعی دوا ادھار پر لیتے ہیں اسکو کئی کئی چکر لگوا کررولتے ہیں۔جب ادھار دینے والا  لینے اتا ہے تو ہم میں سے بہت سے کسان بڑے فخر سے اسے اپنی بے ایمانی کے قصے سنا رہے ہوتے ہیں ۔ یار فلاں سے زمین خریدی ہے میں نہ خریدتا تو فلان کریدتا،بھینس خرید لی ہے،کوٹھی بنوا لی ہے،بچوں کی شادیا ٓں کر لی ہیں بہت پیسہ لگ گیا ہے۔ بس یار فصل بھی بہت کم ہوئی ہے۔ تجھے اگلی فصل پر دوں گا ۔ اگلی فصل پر پھر وہی پچھلی باتیں ۔ اور کبھی بھی نہیں سوچا کہ اس کی کیا مجبوری ہو گی اسنے اگے کسی کے دینے ہوں گےوہ کتنا مجبور ہو گا ۔ اس کی بچی کی شادی شائید انہیں پیسوں سے ہونی ہو جن سے اپ نے اپنی باچھی کی شادی کی ہو۔ اس پر کسی کمپنی نے ایف آئی آر کرائی ہو اور وہ پیسے جو ہم میں سے کچھ کسان بڑی ڈھٹائی سے نہیں دے رہے ہوتے ان پیسوں سے سے شائید اس کی جان چھوٹ سکتی ہو ۔ ہم اپنا سوچتے ہیں ۔ اگر کسی نے سختی سے پیسے مانگ بھی لئے وہ بھی بار بار کے چکروں سے تنگ آکر تو ہم میں سے وہی کچھ کسان  کہتے ہیں کہ جو دوا تو نے دی تھی وہ تو جعلی تھی اسکی وجہ سے میری پیداوار کم ہوئی تھی وغیرہ وغیرہ۔۔۔ حالانکہ ایسا نہیں ہوتا انسان کو اللہ اسکی قسمت اور نیت کا دیتا ہے۔

پیٹرول پمپ والے سے بھی ہم کسان تیل ادھار لینے کی کوشش کرتے ہیں تیل کی کوئی حامی نہیں بھرتا مگر کوئی ایک ادھ  پمپ والا ہمیں تیل دے بھی دیتا ہے  تو وہ ایرانی تیل ادھار پر دیتا ہے جس میں 50 فیصد بچت ہو پھر وہ تیل استعمال زیادہ ہےہمارا نقصان اس ادھار کی وجہ سے ہوتا ہے وہ پمپ والے کے غلط تیل دینے سے ہوتا ہے۔مگرہم کسان اس  پمپ والے کو وقت پر پیمنٹ کرتے ھیں کیونکہ کوئی تیل ادھار نہیں دے رہا ہوتا۔اسی طرح ہم کھاد والے کو بھی وقت پر پیسے دے دیتے ہیں حالانکہ اس نے کھاد پر بہت سارا سود بھی ہم سے لینا ہوتا ہے۔ مگرہم کسان اس ایماندار ڈیلر کو پیسے نہیں دیتے جو اب ہمارے اپنے رویہ جات کی وجہ سے ایمانداری سے دور ہوتا جارہا ہے۔جس نے کیڑا پڑنے پر دوا دی فصل کو اگانے کیلیئے بیج دیا. پیداوار بڑھانے کے لئےہمیں کھادیں دیں اسکو ہم ہمیشہ خراب کرتے ہیں. ہم ان دکانداروں کو چکر لگوا لگوا کر رسوا کرتے ہیں. جو اگر ہماری مدد اللہ کے بنائے اسباب کی وجہ سے نہ کریں تو ہماری فصلیں پیداوار نہ دیں. اب اس طرح زیادتی کرنے سے اللہ ہم سے ناراض ہو جاتا ہے. اور ہمارا یہ حال بنتا ہے جو آج ہو رہا ہے. آمدن کم اور خرچ زیادہ. زمین میں اخراجات زیادہ اور پیداوار کم اور نہ ہونے کے برابر. اورہم میں سے وہ جو بے ایمانی کر چکے ہوتے ہیں بڑی ڈھیٹائی سے مونچھوں کو تاؤدے کر کہتے پھرتے ہیں  کہ کیا ہوتا ہے کچھ بھی نہیں ہوتا ۔یہ ہمارے ساتھ کیا کر سکتا ہے . ہم میں سے بہت سارے  

 احسان فراموش ہو چکے ہیں. اور اپنے محسن کے قاتل ہیں. اور ایسا انسان کامیاب نہیں ہوتا کبھی بھی. ہمارے پیارے رسولٰؐ نے بھی مقروض کو نا پسند فرمایا ہے۔ ہم مقروض چہرہ لیکر کس منہ سے ان کے سامنے پیش ہوں گے۔  اللہ سے توبہ کریں اور ائندہ نیک کام کریں. عشر و زکواۃ دیں. نماز ادا کریں. اور لین دین کے معاملات میں ایمانداری سے پیش آئیںاللہ ہمارا  ہامی و ناصر ہو. اللہ ہمیں توبہ کرنے کی توفیق دے. امین

اپ کا خیر خواہ سمارٹ گرین ایگری کلچر گائیڈ۔         

 


Comments

  1. زبردست جناب کمال کی پوسٹ ہے پر سمجھ نہیں انی کسی کے بھی

    ReplyDelete

Post a Comment

Popular posts from this blog

عُشر اور مقروض کاشتکار

سندھ حکومت نے نئی پنشن پالیسی کی منظوری دے دی

دیسی کلینڈر