Halloween ہالووین

 

ہالووین کیا ہے اس کو پاکستانی لوگ کیوں منانے لگے ہیں؟

تحریر: حکیم غلام یٰسین آرائیں

Halloween       ہالووین

ہالووین کیا ہے اس کو پاکستانی لوگ کیوں منانے لگے ہیں

(Halloween)

  ہالووین امریکا میں منایا جانے والا ایک تہوار ہے جس میں گلی کوچوں، بازاروں، سیرگاہوں اور دیگر مقامات پر جابجا ڈراؤنے چہروں اور خوف ناک لبادوں میں ملبوس چھوٹے بڑے بھوت اور چڑیلیں چلتی پھرتی دکھائی دیتی ہیں۔ اکثر گھروں کے باہر بڑے بڑے کدو پِیٹھے نظر آتے ہیں جن پر ہبت ناک شکلیں تراشی گئی ہوتی ہیں اور ان کے اندر موم بتیاں جل رہی ہوتی ہیں۔ کئی گھروں کے باہر ڈراونے ڈھانچے کھڑے دکھائی دیتے ہیں اور ان کے قریب سے گزریں تو وہ ایک خوف ناک قہقہہ لگا 
کر دل دہلا دیتے ہیں۔

Halloween       ہالووین

کاروباری مراکز میں بھی یہ مناظر اکتوبر شروع ہوتے ہی نظر آنے لگتے ہیں۔ 31 اکتوبر کو جب تاریکی پھیلنے لگتی ہے اور سائے گہرے ہونا شروع ہوجاتے ہیں تو ڈراؤنے کاسٹیوم میں ملبوس بچوں اور بڑوں کی ٹولیاں گھر گھر جاکر دستک دیتی ہیں اور ٹریک ار ٹری  کی صدائیں بلند کرتی ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یا تو ہمیں مٹھائی دو، ورنہ ہماری طرف سے کسی چالاکی کے لیے تیار ہو جاؤ۔ گھر کے مکین انہیں ٹافیاں اور میٹھی گولیاں دے کر رخصت کر دیتے ہیں۔
:ابتدا
کہا جاتا ہے کہ امریکا میں ہالووین کی ابتدا 1921ء میں شمالی ریاست منیسوٹا سے ہوئی اور اس سال پہلی بار شہر کی سطح پر یہ تہوار منایا گیا۔ پھر رفتہ رفتہ دو ہزار سال پرانا یہ تہوار امریکا کے دوسرے قصبوں اور شہروں تک پھیل گیا اور پھر اس نے قومی سطح کے بڑے تہوار اور ایک بہت بڑی کاروباری سرگرمی کی شکل اختیار کرلی۔
:تاریخ
تاریخ دانوں کا کہنا ہے ہالووین کا سراغ قبل از مسیح دور میں برطانیہ کے علاقے آئرلینڈ اور شمالی فرانس میں ملتا ہے جہاں سیلٹک قبائل ہر سال 31 اکتوبر کو یہ تہوار مناتے تھے۔ ان کے رواج کے مطابق نئے سال کا آغاز یکم نومبر سے ہوتا تھا۔ موسمی حالات کے باعث ان علاقوں میں فصلوں کی کٹائی اکتوبر کے آخر میں ختم ہوجاتی تھی اور نومبر سے سرد اور تاریک دنوں کا آغاز ہو جاتا تھا۔ سردیوں کو قبائل موت کے ایام سے بھی منسوب کرتے تھے کیونکہ اکثر اموات اسی موسم میں ہوتی تھیں۔

قبائل کا عقیدہ تھا کہ نئے سال کے شروع ہونے سے پہلے کی رات یعنی 31 اکتوبر کی رات کو زندہ انسانوں اور مرنے والوں کی روحوں کے درمیان موجود سرحد نرم ہوجاتی ہے اور روحیں دنیا میں آکر انسانوں، مال مویشیوں اور فصلوں کو نقصان پہنچا سکتی ہیں۔ روحوں کو خوش کرنے کے لیے سیلٹک قبائل 31 اکتوبر کی رات آگ کے بڑے بڑے الاؤ روشن کرتے تھے، اناج بانٹتے تھے اور مویشیوں کی قربانی دیتے تھے۔ اس موقع پر وہ جانوروں کی کھالیں پہنتے اور اپنے سروں کو جانوروں کے سینگوں سے سجاتے تھے۔

جب آٹھویں صدی میں ان علاقوں میں مسیحیت کا غلبہ ہوا تو اس قدیم تہوار کو ختم کرنے کے لیے پوپ بونی فیس چہارم نے یکم نومبر کو ’تمام برگزیدہ شخصیات کا دن‘ قرار دیا۔ یہ دن اس دور میں ’آل ہالوز ایوز‘ کہلاتا تھا جو بعد ازاں بگڑ کر ہالووین بن گیا۔ کلیسا کی کوششوں کے باوجود ہالووین کی اہمیت کم نہ ہو سکی اور لوگ یہ تہوار اپنے اپنے انداز میں مناتے رہے۔

امریکا دریافت ہونے کے بعد بڑی تعداد میں یورپی باشندے یہاں آکر آباد ہوئے۔ وہ اپنے ساتھ اپنی ثقافت اور رسم و رواج اور تہوار بھی لے کر آئے۔ کہا جاتا ہے کہ شروع میں ہالووین میری لینڈ اور جنوبی آبادیوں میں یورپی تارکین وطن مقامی طور پر چھوٹے پیمانے پر منایا کرتے تھے۔ انیسویں صدی میں بڑے پیمانے پر یورپ سے لوگ امریکا آکر آباد ہوئے جن میں ایک بڑی تعداد آئرش باشندوں کی بھی تھی۔ ان کی آمد سے اس تہوار کو بڑا فروغ اور شہرت ملی اور اس میں کئی نئی چیزیں بھی شامل ہوئیں جن میں، ٹرک آر ٹریٹ، خاص طور پر قابل ذکر ہے، جو آج اس تہوار کا سب سے اہم جزو ہے۔

انیسویں صدی کے آخر تک امریکا میں ہالووین پارٹیاں عام ہونے لگیں جن میں بچے اور بڑے شریک ہوتے تھے۔ ان پارٹیوں میں کھیل کود اور کھانے پینے کے ساتھ ساتھ ڈراؤنے کاسٹیوم پہنے جاتے تھے۔ اس دور کے اخباروں میں اس طرح کے اشتہار شائع ہوتے تھے جن میں ایسے بہروپ دھارنے والوں کی حوصلہ افزائی کی جاتی تھی جنہیں دیکھ کر لوگ دہل جائیں۔
بیس ویں صدی میں ہالووین کی حیثیت مذہی تہوار کی بجائے ایک ثقافتی تہوار کی بن گئی جس میں دنیا کے دوسرے حصوں سے آنے والے تارکینِ وطن بھی اپنے اپنے انداز میں حصہ لینے لگے۔ رفتہ رفتہ کاروباری شعبے نے بھی ہالووین سے اپنا حصہ وصول کرنے کے لیے نت نئے کاسٹیوم اور دوسری چیزیں مارکیٹ میں لانا اور ان کی سائنسی بنیادوں پر مارکیٹنگ شروع کردی۔ یہاں تک کہ اب ہالووین اربوں ڈالر کے کاروبار کا ایک بہت بڑا ثقافتی تہوار بن چکا ہے۔
اکتیس اکتوبر کو منایا جانے والا مغربی تہوار ہالووین اب آہستہ آہستہ مشرقی ممالک میں بھی منایا جانے لگا ہے ۔ہالووین تہوار کی جڑیں ہمیں یورپ میں نظر آتی ہیں ۔یہ تہوار قدیم مذہب سیلٹ کے ماننے والے صدیوں سے مناتے آۓ ہیں ۔اس مذہب کے ماننے والوں کا یہ عقیدہ ہے کہ دنیا میں انسانوں اور بری ارواح کے درمیان ایک پردہ موجود ہوتا ہے جو انسانوں کو ان بری ارواح سے محفوظ رکھتا ہے ۔مگر موسم گرما کے اختتام پر یہ پردہ بہت باریک ہوجاتا ہے ۔
Halloween       ہالووین
اس پردے کے نازک ہونے کے سبب اس بات کا امکان بہت بڑھ جاتا ہے کہ یہ بری ارواح انسان پر حملہ آور نہ ہو جائیں ۔ان کے اس حملے سے بچنے کے لۓ اس مذہب کے پیروکار بھیس بدل کر ان بدروحوں کی شکل اختیار کر لیتے ہیں تاکہ ان سے بچا جا سکے ۔ انیسویں صدی کے نصف میں آئرش تارکین وطن ہالووین کو شمالی امریکہ لے کر آۓ تھے اور پھر اس میں جدت پیدا ہوتی گئیں ۔
اب اس دن لوگ اپنے گھروں کو نت نۓ اندازخوفناک انداز میں سجاتے ہیں ۔اس کے ساتھ کدو کو اندر سے خالی کر کے اس کی لالٹین بنا کر بھی گھروں کو سجایا جاتا ہے ۔بچوں میں ٹافیاں اور مٹھائیاں تقسیم کی جاتی ہیں ۔

ہالووین اسلام - کیا مسلمانوں کو منایا جانا چاہئے؟
کیا مسلمان ہالووین مناتے ہیں؟ ہالووین اسلام میں کس طرح سمجھا جاتا ہے؟ ایک باضابطہ فیصلہ کرنے کے لئے، ہمیں اس تہوار کی تاریخ اور روایات کو سمجھنے کی ضرورت ہے.
ایسے تمام افعال اور رسوم و رواج جو کسی خاص تہذیب، مذہب یا نظریے سے پھوٹتے ہوں اور ان کی پہچان سمجھے جاتے ہوں، ان کو بطور تہوار منانا اہلِ اسلام کے لیے جائز نہیں۔ کیونکہ پیغمبرِ اسلام صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے:

من تشبه بقوم فهو منهم

جس نے کسی قوم کے ساتھ مشابہت 
اختیار کی وہ انہی میں سے ہے

(ابوداؤد)

لیکن ایسے اعمال جن کا تعلق کسی مذہب و تہذیب سے خاص نہ ہو بلکہ مختلف قومیں بلاتخصیص ان کو انجام دیتی ہوں، ان کا کرنا مباح ہے۔

ہالووین مغربی تہذیب کا تہوار ہے جس کا آغاز آئرلینڈ کے قبائل نے کیا۔ ان قبائل کا عقیدہ تھا کہ 31 اکتوبر کی رات کو زندہ انسانوں اور مرنے والوں کی روحوں کے درمیان موجود سرحد نرم ہوجاتی ہے اور روحیں دنیا میں آکر انسانوں، مال مویشیوں اور فصلوں کو نقصان پہنچا سکتی ہیں۔ روحوں کو خوش کرنے کے لیے قبائلی 31 اکتوبر کی رات آگ کے الاؤ روشن کرتے، اناج بانٹتے اور مویشیوں کی قربانی دیتے تھے۔ ہالووین کی موجودہ رسم اسی سوچ کی ترقی یافتہ شکل ہے۔ ایسے تہوار منانا اسلام میں جائز نہیں بلکہ غیرمسلموں کے ساتھ مشابہت کی وجہ سے حرام ہے۔ لیکن مشترک معاشرے اور مغربی دنیا میں رہتے ہوئے مسلمان ایسے تہواروں میں بطور مہمان شریک ہوسکتے ہیں کیونکہ اس سے غلط فہمیوں اور باہمی نفرت و کھچاؤ کی فضاء کے خاتمے میں مدد ملے گی اور اسلام کے تصورِ رواداری کو فروغ ملے گا۔ ایسی صورت میں تہوار کی مبارکباد یا تحفہ وغیرہ دینا جائز ہے، بشرطیکہ دل میں ان تہواروں کی عظمت ہرگز نہ ہو۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

Comments

Popular posts from this blog

عُشر اور مقروض کاشتکار

عمودی کاشتکاری Vertical Farming

سندھ حکومت نے نئی پنشن پالیسی کی منظوری دے دی